* کیا تماشہ ہے کہ جس دنیا سے گھبراتے *
غزل
کیا تماشہ ہے کہ جس دنیا سے گھبراتے ہیں ہم
گھوم پھر کر پھر اُسی دنیا میں آجاتے ہیں ہم
تجھ کو اندازہ نہیں ہے زندگی کے جبر کا
کتنے عالم سے بیک لمحہ گزر جاتے ہیں ہم
اک زمانہ تھا کہ ہم سے ہار جاتی تھی یہ رات
اب یہ عالم ہے کہ شب بچھتے ہی سوجاتے ہیں ہم
منتظر رہتا ہے اب بھی اونگھتا سا اک چراغ
کاٹ کر دن کا سفر جب رات گھر جاتے ہیں ہم
وہ جو دے سکتا نہیں ہم کو کوئی عکسِ جمیل
سوچتے ہیں کیوں اُسے آئینہ دکھلاتے ہیں ہم
اب تو لے دے کے بس اک پونجی انا کی رہ گئی
وہ بھی کب تک دیکھئے محفوظ رکھ پاتے ہیں ہم
سلسلہ ٹوٹا کہاں ناظم ہمارے درد کا
اب بھی موتی بن کے اُن پلکوں پہ لہراتے ہیں ہم
ناظم سلطانپوری
18/1, Maulana Mohammad Ali Road
Khiddirpur, Kolkata-700027
Ph: (033)24597774
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|