* روبرو آتے نہیں خواب میں آتے کیوں ہ *
روبرو آتے نہیں خواب میں آتے کیوں ہو
آکے یوں تار مرے دل کے ہلاتے کیوں ہو
عمر رفتہ کی کسی یاد سے حاصل کیا ہے
حال سے تم مرے ماضی کو ملاتے کیوں ہو
سب کو اک روز فنا ہونا ہے اس دنیا میں
شیخ جی موت سے تم مجھ کو ڈراتے کیوں ہو
جس طرف جاکے بہر حال پلٹ آنا ہے
پھر قدم اپنا اسی سمت بڑھاتے کیوں ہو
میں تو کانٹوں پہ بھی چلنے کی سکت رکھتی ہوں
پھر مری راہ میں تم پھول بچھاتے کیوں ہو
اُس کو سمجھائو محبت سے ذرا جاکے نگارؔ
جب ہے پتھر کی زمیں ، پیڑ لگاتے کیوں ہو
******************* |