* جا رہے تھے وادی کہسار میں دو آدمی *
کہمن
محمد نور الدین موج
بے نشانی
منظر:
جا رہے تھے وادی کہسار میں دو آدمی
ایک نے پتھر اٹھا کر دوسرے سے یہ کہا
دیکھ اس کا حسن کیا ہے اور کیا اس کا نصیب
کل یہ تھا سر سے بھی اونچا آج قدموں میںپڑا
کو ہساروں کی بلندی اس کا گھر، اس کا وطن
شان و عظمت اور مسکن بھی جو ہے شاہین کا
کل چٹانوں سے یہ تھا مربوط تو قدریں بھی تھیں
آج بکھرا ٹوٹ کر تو ٹھوکروں میں آرہا
کہمن:
تجربہ کہتا یہی ہے، ہے یہ قدرت کا نظام
بے نشاں ہوتی ہے ہر شے اپنی حد کو توڑ کر
اس اَمر سے تو مبّرا آدمی تک بھی نہیں
اپنی وقعت کھو رہا ہے آج گھر کو چھوڑ کر
٭٭٭
|