* جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے *
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گُزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے
ہرے بھرے میرے خوابوں کو روندنے والو
خُدائے زندہ زمیں پر اُتر بھی آتا ہے
وہ پیاس ہے کہ دُعا بن گیا ہے میرا وُجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے
کبھی جو عشق تھا اب مکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہُنر بھی آتا ہے
بھی چلا بھی نہ تھا اور رُک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ میرا ہمسفر بھی آتا ہے
ملے گا اور میرے سارے زخم بھر دے گا
سُنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دُکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
کوئی چُرا کے مجھے کیسے چُھپ سکے کہ علیمؔ
لہو کا رنگ میرے حرف پر بھی آتا ہے
|