* ہے یہ ایمان کہ اُس کی آواز *
دل کی پاتال سرا سے آئی
دولتِ درد دُعا سے آئی
ہے یہ ایمان کہ اُس کی آواز
سلسلہ وار خُدا سے آئی
ایسا لگتا ہے کہ اُس کی صُورت
عالمِ خواب نُما سے آئی
چلتے ہیں نقشِ قدم پر اُس کے
جس کو رفتار صبا سے آئی
یُونہی قامت وہ قیامت نہ ہوا
ہر ادا ایک ادا سے آئی
حُسن اُس کا تھا قیامت اُس پر
وہ قیامت جو حیا سے آئی
ہر صدا آئی پر اُس کی آواز
صرف تسلیم و رضا سے آئی
دل وہ آنسو کہ پلک سے ٹپکا
غم وہ بارش کہ گھٹا سے آئی
|