* دیا حسب ضرور اب نہیں ہے *
کہمن
عبید للہ ساگر
بجلی
منظر:
دیا حسب ضرور اب نہیں ہے
گذشتہ دور کی ہے یہ نشانی
جہاں بھی دیکھئے اس عہد نو میں
وہاں روشن ہے بجلی کی کہانی
ہزاروں میل طے کرتی ہے پل میں
ہے اتنی تیز بجلی کی روانی
زمیں پر دیکھ کر اس کا تماشہ
تعجب میں ہے برقِ آسمانی
کہمن:
کھلے ہوں قمقموں کے پھول جس دم
حسیں گل ریز بن جاتی ہے بجلی
کوئی نادان جو بجلی سے کھیلے
ہلاکت خیز بن جاتی ہے بجلی
٭٭٭
|