* ذہن قابو میں نہیں ہے رہتا *
کہمن
عبید للہ ساگر
بھوک
منظر
ذہن قابو میں نہیں ہے رہتا
بھوک کی ضرب بڑی کاری ہے
ایسا لگتا ہے اُجالے میں بھی
ظلمت شب کا فسوں طاری ہے
قحط بازار میں ہے غلّے کا
کالے سیٹھوں کی یہ مکاری ہے
بھوک افلاس کے سائے ہر سو
موت کی لِے کا سفر جاری ہے
کہمن:
پیٹ خالی ہو تو ہوگا عرفاں
بھاری ہے سنگ گراں سے روٹی
بھوک وہ دستِ ستم ہے ساگر
نوچ لیتی ہے بدن سے بوٹی
*** |