* میں زخمی جس ستارے کیلئے تھا *
غزل
میں زخمی جس ستارے کیلئے تھا
مرے ننہے دلارے کیلئے تھا
سمندر والے جس کو لے اڑے ہیں
وہ بادل دشت سارے کیلئے تھا
دکاں پر چاند بھی بکتے تھے لیکن
بضد بچہ غبار ے کیلئے تھا
کسی سے بانٹتا میں کیا ترا غم
مرے اپنے گزارے کیلئے تھا
پھر اسکے بعد مر جانا تھا مجھ کو
میں زندہ اک اشارے کیلئے تھا
اُٹھا کر کون سا پتھر میں لایا
اڑا میں کس ستارے کیلئے تھا
دعا در بھی ہوا بند اشکؔ اس پر
دعادر ہی بچارے کیلئے تھا
++++
|