* گردشِ حالات کی ٹھوکر جو کھانے میں *
غزل
گردشِ حالات کی ٹھوکر جو کھانے میں رہے
آپ کیوں اُن کو ہمیشہ آزمانے میں رہے
انگلیاں جن کی کٹی تھیں سرخرو وہ ہوگئے
اُن کو رسوائی ملی جو سر کٹانے میں رہے
وقت کا ہر ابرہا کعبہ مرا ڈھاتا رہا
ہم ابابیلوں کے لشکر کو بلانے میں رہے
ہم چراغِ رہ گزر بن کر جلے ہیں عمر بھر
آپ محلوں میں جلے ہیں تو فسانے میں رہے
رات بھر جلتا رہا آنکھوں میں یادوں کا چراغ
تھپتھپا کر یوں تو ہم خود کو سلانے میں رہے
بھوک سے اوندھا پڑا تھا راستے میں وہ مگر
ہم شرابی کہہ کے دامن کو بچانے میں رہے
عیب جوئی کا ہنر اچھا لگا عالم مگر
آپ اپنی خامیوں کو کیوں چھپانے میں رہے
پرویز عالم
Mah: Patiana,, P.O: Kulti
Burdwan (W.B)
Mob: 9332180736
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|