donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Perwez Shahidi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* پرویز شاہدی متاعِ فقیری *
پرویز شاہدی
متاعِ فقیری
نا مناسب نہ ہوگا اگر میں اپنے اس شعری مجموعے ’’ تثلیثِ حیات‘‘ کی طرف اربابِ ذوق سے التماس توجہ کی جرأت کرنے سے پہلے اپنے متعلق بھی ضمناً کچھ کہتا چلوں۔ مثلاً یہ کہ میرا نام سید محمد اکرام حسین ہے اور تخلص پرویز شاہدی ۔ میں ۱۹۱۰ء میں لودی کٹرہ پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوا ۔ میرا تعلق اس خاندان اور طبقہ سے ہے جو بیک وقت زمینداری اور درویشی کے راستہ پر چلتے رہنا چاہتا تھا۔ میں اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہوں اس لئے گھر والوں کے لاڈ و پیار سے اپنے ماں جایوں کے مقابلہ میں زیادہ ہی مستفید ہوتا رہا۔ والدین کی شفقت بے پایاں تو تھی ہی اس کے علاوہ ملی دادا جان کی والہانہ محبت، میں دس گیارہ سال تک کی عمر تک ان ہی کی نگرانی میں رہا۔ ان کے انتقال کے بعد یہ جنت مجھ سے چھن گئی۔ میری کم عمری کے باوجود اس صدمہ کا اثر بہت دنوں تک باقی رہا۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی کی مرہون منت ہے۔ درس نظامیہ کے مطابق جو کتابیں فارسی اور عربی سے متعلق پڑھائی جاتی تھیں ان میں سے اکثر و بیشتر مجھے پڑھا دی گئیں۔
اسی  زمانہ طفلی میں میں نے ایک بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔ میرے خاندان کے افراد سے اکثر انہیں کے حلقہ ارادت میں داخل ہو چکے تھے۔
۱۹۲۵ء میں، میں نے پرائیوٹ کنڈیڈیٹ کی حیثیت سے کلکتہ یونیورسٹی سے میٹرک کیا اور آئی اے اور بی اے پٹنہ یونیورسٹی سے۔ اردو اور فارسی میں ایم اے بھی وہیں سے کیا۔ پٹنہ کالج میں قانون کی پڑھائی بھی ختم کر لی تھی۔
۱۹۳۵ء میں ایک جدباتی صدمے کے زیر اثر میں پٹنہ کو خیر آباد کہتا ہوا کلکتہ چلا آیا۔ میں ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتا تھا۔ ماضی کے نقوش کو کھرچ کھرچ کر حافظے سے مٹانے کی کوشش کرنے لگا۔ ان میں سے کتنے ہی مٹ گئے، کتنے ہی دھندلے ہو کر رہ گئے۔ درس و تدریس کو روزی کا وسیلہ بنایا۔ ایک اسکول میں اسسٹنٹ ٹیچر کی حیثیت سے جگہ ملی۔ اس کے بعد مختلف اسکولوں میں اسسٹنٹ ٹیچر اور پھر ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔اسی زمانہ میں اسکول کی انسپکٹری ملی لیکن اس جگہ پر مہینوں کام کرتے رہنے کے باوجود میں نے اس کو پنے مزاج سے برسرِ پیکار ہی پایا۔ اس سے سبکدوشی حاصل کرکے پھر اپنی پرانی جگہ پر واپس آگیا۔ اسکول کی ملازمت کے تقاضوں سے مجبور ہو کر ۱۹۳۸ء میں بی، ٹی کی سند حاصل کر لی۔ ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۶ء تک مدنا پور( مغربی بنگال) کے  کالج میں لکچرر رہا۔ ۱۹۴۷ء میں سریندر ا ناتھ کالج میں جگہ ملی۔ اور پھر میں یہاں چلاآیا۔ ۱۹۴۹ء میں کمیونسٹ تحریک کے سلسلہ میں مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ڈیڑھ سال تک نظر بند رہا باہر آیا تو معلوم ہوا کہ کالج کی نوکری جا چکی ہے۔ ایک دم توڑتے ہوئے اسکول میں ہیڈ ماسٹر کی جگہ ملی۔ میری زندگی میں اتنا کربناک اور مالی لحاظ سے اذیت بخش دور کبھی نہیں آیا تھا۔ دو سال یہاں کی اذیت میں گرفتار رہا۔ پھر سی ایم او ہائی اسکول کولکاتہ میں ہیڈ ماسٹری مل گئی۔ یہاں قدرے سکون نصیب ہوا۔ ۱۹۵۷ء تک اس اسکول میں کام کرتا رہا۔ ۱۹۵۸ء سے کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے منسلک ہوں۔
ظاہر ہے کہ اوپر لکھی ہوئی باتوں کی حیثیت بھی بالکل ضمنی اور رسمی ہے۔ نہ ان سے قارئین کو کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے۔ نہ کاغذ کے بے جان صفحات کو میں ان سے مدد لے کر اپنے متعلق ضروری معلومات بھی یکجا نہیں کر سکتا۔ ان باتوں کو سخن گسرانہ سمجھ کر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
تو پھر ’’ میں کون؟ میں کیا؟‘‘ کی بات تو جہاں تھی وہیں رہی۔ بات آگے بڑھے بھی تو کیسے بڑھے۔ خود میں ہی کب اپنے آپ کو پہچان سکا ہوں کہ احباب و اغیار سے اپنا تعارف کرادوں۔ میں پنی شخصیت میں اب ھی تک کوئی ایسی دنیا دریافت نہیں کر سکا ہوں جہاں دوسروںش کو بھی دعوتِ  سیر وسیاحت دینے کی جرأت کروں۔ بہر حال خود کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ ابھی تک ناکام ضرور ہوں لیکن مایوس نہیں۔ میں ان خوش نصیبوں میں بھی نہیں جو بغیر کسی روک ٹوک کے جب اور جب تک چاہیں اپنے تحت الشعور کی دنیا کی سیر کرتے رہیں۔وہاں کے تاریک ترین تہہ خانوں میں جھانک کر اپنے پیرہن وجود کے ایک ایک تار کو گن سکیں۔ اپنی نا آسودہ خواہشوں کا رقص برہنہ دیکھ سکیں۔ اور پھر جب اس انتشار ستانِ نفس سے اپنی تہذیب گزیدہ دنیائے شعور میں واپس آئیں تو یہاں واپس آکربھی وہاں کی کہانی وہیں کی زبانی میں سنا سکیں۔ ’’ دروں بینی‘‘ پر مجھے اتنی قدرت نہیں کہ اپنے احساس میں وجود ہی کو اثباتِ وجود سمجھ لوں۔ میں اپنے وجود کی تصدیق کا آرزو مند ہوں۔ صرف مطالعہ نفس ہی کے سہرے نہیں بلکہ خارجی دنیا کی بھی مدد سے میں سمجھتا ہوں کہ اس دنیا کو سمجھے بغیر باطنی دنیا کے متعلق کامیابی کے ساتھ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ کم سے کم میں تو نہیں سوچ سکتا۔
اسی طریقہ خود شناسی پر عمل کرنے کے شوق نے مجھے ایک سیاسی نظریے اور فلسفہ حیات سے وابستہ کر دیا۔ اسی لئے اس دور میں بھی جب ’’ وفاداری ‘‘ احباب و اغیار کے بعض بعض حلقوں میں ادب کے لئے مہلک بتائی جا رہی ہے، میں اس ’’ وفاداری‘‘ کی حیات افروزی کا قائل ہوں۔میں اپنے لئے بھی خیال کی وہی آزادی مانگتا ہوں جو آزادی خیال کے نام پر مانگی جا رہی ہے۔
میری زندگی ہو یا میری شاعری، میں نے دونوں ہی کے سہارے اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کی ہے اور احساسِ ناکامی کے باوجود اعتراف شکست کے لئے تیار نہیں۔ میں زندگی کے صرف نا مانوس اور اجنبی گوشوں ہی سے متعارف ہونے کا متمنی نہیں، بلکہ بار بار دیکھی بھالی دنیا سے بھی تجدید تعارف کرتے رہنے کا آرزو مند ہوں۔ کاش صرف اپنے آئینہ دل ہی میں نہیں دوسروں کی آنکھوں میں بھی جھانک کر اپنا چہرہ تلاش کر سکوں۔ میں نے اپنی شاعری کے آئینہ میں بھی اپنا چہرہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔کبھی کبھی ایک ہلکی سی جھلک نظر آئی اور پھر جیسے خلا میں کھو گئی۔
جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے، چوں کہ میرے والد بزرگوار بھی شعر کہتے تھے اور ہمارے مکان میں اکثر شعر خوانی کی محفلیں گرم ہوا کرتیں، میں آٹھ یا نو سال کی عمر سے ان محفلوں میں دلچسپی لینے لگا۔ پہلے صرف ایک کم عمر اور نا فہم سامع کی حیثیت سے شریک ہوتا رہا۔ بعد میں خود شعر کہنے کی جرأت  ہوئی طبیعت اثر صحبت سے موزوں ہو چلی تھی۔ تُک بندی کرنے لگا۔ کب ھی کبھی کتر بیونت اور کاٹ چھانٹ سے کام لے کر اندوختہ دیگراں کو بھی اپنے تصرف میں لانے کی کوشش کرتا۔ داد تحسین سے ہمت بڑھنے لگی۔ میں نے حضرت مولاناعین الہدیٰ صاحب ثمرؔ جانشیں حضرت صفیر بلگرامی سے رجوع کیا اور ان کو غزلیں دکھانے لگا۔ ان غزلوں کی حیثیت عطیۂ استاد سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ اشعار جن کو میں اپنا سمجھ سکتا تعداد میں بہت کم ہوتے۔ یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہا۔ میں نے دو چار غزلوں کے بعد ہی اصلاح لینا ختم کر دیا۔ اساتذۂ فارسی و اردو کے دواوین کا مطالعہ بڑے انہماک کے ساتھ کرنے لگا۔ دوستوں کو مرعوب کرنے کی دبی ہوئی خواہش نے ناسخؔ کے پُر شکوہ رنگِ سخن کی تقلید کا مشورہ دیا۔ ایک عرصہ تک اس رنگ میں مشق سخن کا سلسلہ قائم رہا۔ جب میں بی۔ اے کلا س میں پہنچا اور اس زمانے کی سیاسی او ر ادبی تحریکوں میں حصہ لینے لگا تو اپنے معاشرہ کے کھوکھلے پن ، اس کے تضادات، اس کے مکر و فریب وغیرہ پر نظر پڑنے لگی۔ تضادات ہی کی گود میں ترو آنکھ کھلی تھی۔ میںع ’’ اے مری جاتی ہوئی دنیا بڑا دھوکا ہوا‘‘ کہہ کو خاموش ہو جانا نہیں چاہتا تھا۔مجھے اس فنا آمادہ معاشرے پر غصہ بھی اتارنا تھا۔ دل کی بھڑاس بھی نکالنی تھی۔ اس لئے دنیا ئے ادب و سیاست کے بے خوف اور بلند آہنگ رہنمایانِ فکر و عمل کے نقوشِ قدم کو منزل نما سمجھنے لگا۔ لیکن اس وقت تک ع’’ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں‘‘ کی منزل سے قدم آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔ رفتہ رفتہ قوتِ تمیز پیدا ہوئی اور میں راہبروں کو بھی پہچانے کی کوشش کرنے لگا۔ ہندستان میں اور بیرون ہندستان میں جو کچھ ہو رہا تھا اس سے ہر سوچنے والا دماغ اور محسوس کرنے والا دل متاثر ہو رہا تھا۔ میں نے بھی اثر قبول کیا اور میری شاعری نے بھی۔ اکثر دوستوں نے سراہا لیکن بعض بزرگوں اور احباب نے میرے بدلے ہوئے انداِ فکر کو شباب کی غیر ذمہ داری اور انتشار پسندی کا عکس قرار دیا، میں ان کا بھی شکر گذار ہوں۔
 میری شاعری اچھی ہو یا بری، کلاسیکی اسالیب، فکر و اظہار سے گراں بار ہو یا غیر مستحسن بدعتوں سے بوجھل،قارئین کرام کو میرے اشعار میں جگ بیتی یا ااپ بیتی کی کوئی نہ کوئی جھلک ضرور نظر آسکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی میرا فریبِ نفس ہو لیکن میری حسرت ِ خود شناسی اور تمنائے تعارف کے لئے کوئی دوسرا قابل اعتبار سہارا بھی تو نہیں۔
مجھے فطرت کی طرف اور کوئی نعمتِ فکر واحساس ملی ہو یا نہ ملی ہو، ایک ایسا دل ضرور ملا ہے جو کبھی آسودہ نہیں ہوتا۔ ایک فکری اور جذباتی نا آسودگی مجھے ہمیشہ اپنی گرفت میں لئے رہی ہے۔ میری یہ نا آسودگی صرف میرے زمانہ شباب ہی تک محدود نہیں رہی۔ آج بھی جب میری عمر آغاز ِ پیری کی منزل میں داخل ہو رہی ہے، مجھے بے قرار کئے رہتی ہے۔ تازہ سے تازہ تر کی تمنا دل میں لئے پھرتا ہوں۔ خیالات اور اسالیب بیان میں ترمیم اور تفسیر سے کام لینے کی کوشش کرتا رہتا ہو ں ۔ میری دستگیری کرنے والوں میں کلاسیکی ادب کے اربابِ فن ہی نہیں بلکہ وہ تازہ فکر اور شگفتہ احساس لکھنے والے بھی ہیں جن کو نئی نسل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان سے بھی سیکھتے رہنا چاہتا ہوں۔
سطورِبالا میں جو باتیں میں نے کہی ہیں ان کا میری شاعری سے کیا تعلق ہے اور ان کا کوئی عکس میرے اشعار میں ملتا بھی ہے یا نہیں، ان کا جواب قارئین دے سکتے ہیں، میں نہیں۔
میرا پہلا شعری مجموعہ’’ رقصِ حیات‘‘ دس گیارہ سال پہلے مکتبہ شاہراہ دہلی نے شائع کیا تھا۔ مکتبہ والوں نے شاید بالکل بے دلی سے شائع کیا تھا ورنہ طباعت اور کتابت اتنی خراب نہ ہوتی۔ خیر چھپ تو گیا ۔ میں اسی کو غنیمت سمجھتا ہوں ورنہ میری کاہلی اور بے پروائی سے کبھی چھپنے کا موقع نہ آتا۔ دوسرا شعری انتخاب ’’ تثلیثِ حیات‘‘ ایک طویل عرصے کے بعد پھر ارباب ذوق کی خدمت میں ’’ متاع فقیر‘‘ لے کر حاضر ہو رہا ہے جس طرح ’’ رقص حیات‘‘ کی اشاعت چند خاص احباب کی سرگرم کوششوں کی مرہونِ منت تھی اسی طرح ’’ تثلیث حیات‘‘ کا شائع ہونا میرے چند عزیز اور شاگردوں کی جانفشانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ احباب اور ہمدردوں کے اصرار سے چند نظمیں اور غزلیں ایسی بھی شامل کرلی گئی ہیں جو رقصِ حیات ‘‘ میں بھی موجود ہیں۔ دونوں انتخابات کی اشاعتوں کے درمیانی وقفے میں بدلتے ہوئے حالات زمانہ کے ساتھ ساتھ میرے سوچنے کے انداز میں بھی تغیرات آئے اور شاید لہجہ اور طرز بیان میں بھی۔ یہ میرے حق میں اچھا ہوا یا بُرا یہ بھی اربابِ نظر ہی بتا سکتے ہیں۔ میں نہ پہلے مجموعے سے مطمئن تھا نہ دوسرے مجموعے سے ہوں۔ پیش کش جیسی بھی ہو۔ع 
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
(۲۹ اپریل۱۹۶۸ئ)
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 620