کہنےکوسال ہر اِک نیا سال ہے
دِل کابرسوں پُرانامگرحال ہے
خواہشوں کےسوا آئے کیا، زندگی
خواہشوں کابچھایا ہوا جال ہے
لَے اٹھے گی کہاں تیری سازِ حیات
جسم میں سُر نہیں رُوح بےتال ہے
جو عبارت ہواؤں پہ لکھدی گئی
پتھروں پر لکیروں کی امثال ہے
بند خلیوں میں ہیں جو خم و پیچ سے
جسم کاسارا ان میں نہاں حال ہے
نارسائی کے صحراؤں میں گمُ کہیں
میرا ادراک ہےمیرا اقبال ہے
اقباؔل شیخ
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸