* باغِ عالم میں رہے شادی و ماتم کی طر *
باغِ عالم میں رہے شادی و ماتم کی طرح
پھول کی طرح ہنسے رو دیئے شبنم کی طرح
شکوہ کرتے ہو خوشی تم سے منائی نہ گئی
ہم سے غم بھی تو منایا نہ گیا غم کی طرح
روز محفل سے اٹھاتے ہو تو دل دُکھتا ہے
اب نکلواؤ تو پھر حضرتِ آدم کی طرح
لاکھ ہم رِند سہی حضرتِ واعظ لیکن
آج تک ہم نے نہ پی قبلۂ عالم کی طرح
تیرے اندازِ جرات کے نثار اے قاتل
خون زخموں پہ نظر آتا ہے مرہم کی طرح
خوف دل سے نہ گیا صبح کے ہونے کا قمر
وصل کی رات گزاری ہے شبَ غم کی طرح
|