* کہتے ہیں مجھ سے عشق کا افسانہ چاہی *
کہتے ہیں مجھ سے عشق کا افسانہ چاہیے
رسوائی ہو گئی تمہیں شرمانا چاہیے
خود دار اتنی فطرتِ رندانہ چاہیے
ساقی یہ خود کہے تجھے پیمانہ چاہیے
عاشق بغیر حُسن و جوانی فضول ہے
جب شمع جل رہی ہو تو پروانہ چاہیے
آنکھوں میں دم رکا ہے کسی کے لیے ضرور
ورنہ مریضِ ہجر کو مر جانا چاہیے
وعدہ تھا ان کا رات کے آنے کا اے قمرؔ
اب چاند چھپ گیا انہیں آ جانا چاہیے
|