* اتاری جاتی ہے ان کی نظر مگر پھر بھی *
جمالِ رُخ پہ ٹھہرتی نہیں نظر پھر بھی
اتاری جاتی ہے ان کی نظر مگر پھر بھی
کوئی ٹھکانہ ہے شاید بدگُمانی کا
قفس میں قید ہوں کاٹے ہیں میرے پر پھر بھی
ملال کر دلِ مضطر نہ ان کے جانے کا
خُدا نے چاہا تو آئیں گے وہ اِدھر پھر بھی
وہ کہہ رہے ہیں کل آئیں گے ہم بتا تو دیا
لگا رکھی ہے یہ تم نے اگر مگر پھر بھی
ہزار عیش قفس میں سہی مگر وہ بات کہاں
کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہے اپنا گھر پھر بھی
قمر یہ مانا کہ تم اِحتیاط برتو گے
کسی کے رُخ سے جو ٹکرا گئی نظر پھر بھی
|