* مریضِ غم پہ اک ایسی بھی شام آتی ہے *
حدیثِ عشق یہاں معتبر نہیں رہتی
نظر میں ہو جو خیانت نظر نہیں رہتی
مریضِ غم پہ اک ایسی بھی شام آتی ہے
کہ چارہ گر کو امیدِ سحر نہیں رہتی
مریض ان کی صدا سن کے چونک اُٹھتے ہیں
پھر اس کے بعد کسی کو خبر نہیں رہتی
ہزار باغِ محبت پہ آفتیں ٹوٹیں
یہ شاخِ نخلِ وفا بے ثمر نہیں رہتی
تمام اہلِ گلستاں نے کوششیں کر لیں
بہار حد سے زیادہ مگر نہیں رہتی
|