* نکلے تھے جانے کیسی گھڑی گلستاں سے *
شاید کچھ آگے آ گئے کوئے بُتاں سے ہم
اب یاد کر رہے ہیں بھٹکے کہاں سے ہم
نکلے تھے جانے کیسی گھڑی گلستاں سے ہم
ایسے چُھٹے کہ پھر نہ ملے آشیاں سے ہم
رودادِ حُسنُ و عشق سنائیں کہاں سے ہم
شرمائیں گے حضور کہیں گے جہاں سے ہم
مجبور ہو کے ہاتھ میں ساغر اٹھا لیا
جب تنگ آ گئے ستمِ آسماں سے ہم
تھی اتفاقِ وقت ملاقات راہ کی
جانے وہ آ رہے تھے کہاں سے کہاں سے ہم
کچھ اس قدر ہے اِن دنوں پابندئی قفس
ذکرِ چمن بھی کر نہیں سکتے زباں سے ہم
بس اس قدر ہیں ترکِ محبت کے واقعات
کچھ بدگمان سے وہ ہوئے کچھ بدگمان سے ہم
اچھا تو اب فسانہ سہی حسنُ و عشق کا
اوّل سے تم سناؤ کہیں درمیاں سے ہم
رودادِ حسن و عشق زمانہ غلط کہے
نام اپنا کاٹ دیں جو تیری داستان سے ہم
افسانۂ الم پہ وہ یہ کہہ کے سو گئے
اب تنگ آئے ہیں تیری داستاں سے ہم
عرضِ کرم بھی جرم ہے اس کی خبر نہ تھی
سرکار کچھ بھی اب نہ کہیں گے زبان سے ہم
صیّاد کچھ دن اور ہماری خطا معاف
واقف نہیں ہوئے ابھی تیری زبان سے ہم
دیر و حرم بھی ہوں گے مگر ہم کو کیا خبر
اُٹھ کر کہاں گئے ہیں تیرے آستاں سے ہم
بدلیں طرح طرح سے زمانے نے سُرخیاں
لیکن جدا ہوئے نہ تیری داستاں سے ہم
اب سوچتے ہیں مفت میں مٹی ہوئی خراب
آئے تھے کیوں زمیں پہ قمرؔ آسمان سے ہم
|