* آنسو تھمے تو آنکھوں میں بات ہو گئی *
ان کی طرف سے ترکِ ملاقات ہو گئی
ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہو گئی
آنسو تھمے تو آنکھوں میں بات ہو گئی
میخانے جیسے کھل گئے برسات ہو گئی
آئینہ دیکھنے میں نئی بات ہو گئی
ان سے ہی آج ان کی ملاقات ہو گئی
طے ان سے روزِ حشر ملاقات ہو گئی
اتنی سی بات کتنی بڑی بات ہو گئی
کم ظرفیِ حیات سے تنگ آ گیا تھا میں
اچھا ہوا قضا سے ملاقات ہو گئی
دن میں بھٹک رہے ہیں جو منزل کی راہ سے
یہ لوگ کیا کریں گے اگر رات ہو گئی
آئے ہیں وہ مریضِ محبت کو دیکھ کر
آنسو بتا رہے ہیں کوئی بات ہو گئی
اچھا ہوا تم میرے رونے پہ ہنس دیئے
کہنے کو عمر بھر کے لئے بات ہو گئی
اب دشمنوں کی مجھ سے کرتے ہو شکائتیں
جب دشمنوں کی مجھ سے ملاقات ہو گئی
تھا اور کون پوچھنے والا مریض کا
تم آ گئے تو پرششِ حالات ہو گئی
اے بلبلِ بہارِ چمن اپنی خیر مانگ
صیّاد و باغباں میں ملاقات ہو گئی
جب زلف یاد آ گئی یوں اشک بہہ گئے
.جیسے اندھیری رات میں برسات ہو گئی
گلشن کا ہوش اہلِ جنوں کو بھلا کہاں
صحرا میں پڑ رہے تو بسر رات ہو گئی
در پردہ بزمِ غیر میں دونوں کی گفتگو
اُٹھی ادھر نگاہ ادھر بات ہو گئی
کب تک قمرؔ ہو شام کے وعدے کا انتظار
سورج چھپا، چراغ جلے، رات ہو گئی
|