* مقتل میں حال پوچھو نہ مجھ بے قرار ک *
کِس یاس سے مرے ہیں مریض انتظار کے
قاتِل کو یاد کر کے قضا کو پکار کے
مقتل میں حال پوچھو نہ مجھ بے قرار کے
تُم اپنے گھر جاؤ چھری پھیر پھار کے
مُرجھا گئے ہیں رات کو پھول ان کے ہار کے
لانا کوئی نسیمِ سحر کو پکار کے
رکتی نہیں ہے گردشِ ایّام کی ہنسی
لے آنا طاق سے میرا ساغر اتار کے
جی ہاں شراب خور ہیں ہم تو جانبِ شیخ
بندے بس ایک آپ ہیں پروردگار کے
جس جا لکھا ہوا تھا مقدر میں ڈوبنا
کشتی کو موج لائی وہیں گھیر گھار کے
صیّاد تیرے حکمِ رہائی کا شکریہ
ہم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے
جیسے جفا و ظلم سے کچھ واسطہ نہیں
قربان جائیں نگاہِ شرمسار کے
ہم ان سے بات کر نہ سکے بزمِ غیر میں
شوقِ کلام رہ گیا دِل مار مار کے
بجلی کبھی گری کبھی صیّاد آ گیا
ہم نے تو چار دن بھی نہ دیکھے بہار کے
کتنی طویل ہوتی ہے انساں کی زندگی
سمجھا ہوں آج میں شبِ فرقت گزار کے
میّت قمرؔ کی دیکھ کے بولے وہ صبح ہجر
تارے گنے گئے نہ شبِ انتظار کے
|