* صدائے آہ سُن سُن کر مریضِ سوز و پنہ *
بڑھی جاتی ہے رسوائی جنونِ فتنہ سامان کی
تمہیں دامن میں رکھ لو دھجّیاں میرے گریباں کی
صدائے آہ سُن سُن کر مریضِ سوز و پنہاں کی
سحر تک تھر تھرائی لو چراغِ شامِ ہجراں کی
یہی فطرت ہے گر دستِ جنوں فتنہ ساماں کی
کرے گا بختیہ گری کب تک گریباں کی
نوازش ہے یہ سب دستِ جنوں فتنہ ساماں کی
کہ اب صورت بھی پہچانی نہیں جاتی گریباں کی
نہ جانے آج کل کس حال میں ہے ان کا دیوانہ
خبر کوئی بیاباں سے نہیں آتی بیاباں کی
ہمارے سامنے آنے کو وہ سو بار آئے تھے
مگر کیا کیجیئے قسمت بری تھی چشمِ حیراں کی
نہ دیتے خیر کاندھا دو قدم کو ساتھ تو دیتے
تم اتنا ہی سمجھ لیتے کہ میّت ہے مسلماں کی
چمن کو چھوڑ کر صحرا میں جا بیٹھا ہے دیوانہ
گلستاں کے نہ کام آئی کہ مٹی تھی بیابان کی
دلِ ویراں سے کیا سوزِ نہاں جائے گا اے ہمدم
کہ مشکل سے بجھا کرتی ہے آگ اکثر بیاباں کی
سنبھل کر آئینے کو دیکھنا او دیکھنے والے
تیری زلفوں میں صورت ہے میرے حالِ پریشاں کی
ہمیں اے باغباں کیوں باغ کا مالک نہیں کہتا
سروں کو بیچ کر قیمت ادا کی ہے گلستاں کی
قمرؔمحفل کبھی کی بھر گئی اور وہ نہیں آئے
ستارے راہ کب سے تک رہے ہیں ماہِ تاباں کی
|