نہ جانے کتنے سرائے جہاں سے گزرے ہیں طرح طرح کے مسافر یہاں سے گزرے ہیں خدا دکھائے نہ وہ وقت جب قفس کے اسیر نظر جھکائے ہوئے گلستاں سے گزرے ہیں جفائیں پوچھیے تنکوں پہ برق و صرصر کی یہ حادثے نظر باغباں سے گزرے ہیں