* خیالِ یار میں مجھ کو یونہی مدہوش ر *
خیالِ یار میں مجھ کو یونہی مدہوش رہنے دو
نہ پوچھو رات کا قصہ ، مجھے خاموش رہنے دو
بنا جسکے کہے جسکی میں سب باتیں سمجھتا ہوں
مجھے اسکے لیے یونہی ہمہ تن گوش رہنے دو
سُنایا وصل کا قصہ ، تو میرے یار یوں بولے
کہاں تم اور کہاں اسکی حسیں آغوش رہنے دو
مجھے معلوم ہے اسنے مرا ہونا نہیں لیکن
مری امید مت توڑو ، مجھے پر جوش رہنے دو
محبت جرم ہے میرا ، مجھے اقرار ہے اسکا
وفا الزام ہے تو پھر مرے سر ، دوش رہنے دو
کتابِ عشق سے ہم پر یہی عُقدہ کھلا آسی
پیے جو جام الفت کا اسے مے نوش رہنے دو
محمد قمر شہزاد آسی
|