* زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا *
غزل
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رورہے ہیں ہم تنہا
کھیل تو نہیں یارو، راستے کی تنہائی
کوئی مجھ کو دکھلائے چل کے دو قدم تنہا
اس طرف ترستی ہیں مسجد یں اذانوں کو
اس طرف شوالوں میں رہ گئے صنم تنہا
دل کو چھیڑتی ہوگی یادِ برہمن اکثر
لاکھ دل کو بہلائیں شیخ محترم تنہا
اس بھری خدائی میں آج وہ بھی تنہا میں
خلوتوں میں رہ کر بھی جورہے تھے کم تنہا
+++
|