* ڈھل گیا چاند، گئی رات، چلو سو جائی *
ڈھل گیا چاند، گئی رات، چلو سو جائیں
ہو چکی اُن سے ملاقات، چلو سو جائیں
دور تک گُونج نہیں ہے کسی شہنائی کی
لُٹ گئی اٌس کی بارات، چلو سو جائیں
لوگ اِقرارِ وفا کر کے بُھلا دیتے ہیں
یہ نہیں ہے کوئی نئی بات، چلو سو جائیں
شام ہوتی تو کسی جام سے جی بہلاتے
بند ہیں اب تو خرابات، چلو سو جائیں
اتنے چھینٹوں سے بھی دھویا نہ گیا داغِ الم
کیا کہے گی ہمیں برسات، چلو سو جائیں
جو ہے بیدار یہاں، اس پہ ہے جینا بھاری
مار ڈالیں گے یہ حالات، چلو سو جائیں
ہم نے کیا کچھ نہ سرِ شام کہا تم سے قتیل
آخرِ شب نہ مَلو ہاتھ، چلو سو جائیں
|