* آنکھیں ہر اِک حسیں کی بے فیض تو نہی *
اس پر تمہارے پیار کا الزام بھی تو ہے
اچھا سہی قتیلؔ پر بدنام بھی تو ہے
آنکھیں ہر اِک حسیں کی بے فیض تو نہیں
کچھ ساگروں میں بادۂ گلفام بھی تو ہے
پلکوں پہ اب نہیں ہے وہ پہلا سا بارِ غم
رونے کے بعد اب ہمیں آرام بھی تو ہے
ہم جانتے ہیں جس کو کسی اور نام سے
اِک نام اس کا گردشِ ایام بھی تو ہے
اے تشنہ کامِ شوق اسے آزما کے دیکھ
وہ آنکھ صرف آنکھ نہیں جام بھی تو ہے
منکر نہیں کوئی بھی وفا کا مگر قتیلؔ
دنیا کے سامنے میرا انجام بھی تو ہے
|