* گزرے دنوں کی یاد برستی گھٹا لگے *
گزرے دنوں کی یاد برستی گھٹا لگے
گزروں جو اس گلی سے تو ٹھنڈی ہوا لگے
مہمان بن کے آئے کسی روز اگر وہ شخص
اس روز بن سجائے میرا گھر سجا لگے
میں اس لئے مناتا نہیں وصل کی خوشی
میرے رقیب کی نہ مجھے بددعا لگے
وہ قحط دوستی کا پڑا ہے کہ ان دنوں
جو مسکرا کے بات کرے آشنا لگے
ترکِ وفا کے بعد یہ اس کی ادا قتیلؔ
مجھ کو ستائے کوئی تو اس کو برا لگے
|