* آشیاں جل گیا، گُلستاں لُٹ گیا، ہم *
آشیاں جل گیا، گُلستاں لُٹ گیا، ہم قفس سے نِکل کر کِدھر جائیں گے
اِتنے مانُوس صیّاد سے ہو گئے، اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے
اور کچھ دن یہ دستُورِ مئے خانہ ہے، تشنہ کامی کے یہ دن گُذر جائیں گے
میرے ساقی کو نظریں اُٹھانے تو دو، جتنے خالی ہیں سب جام بھر جائیں گے
اے نسیمِ سحر! تجھ کو اُن کی قسم، اُن سے جا کر نہ کہنا مِرا حالِ غم
اپنے مِٹنے کا غم تو نہیں ہے مگر، ڈر یہ ہے اُن کے گیسُو بِکھر جائیں گے
اشکِ غم لے کے آخر کِدھر جائیں ہم، آنسوؤں کی یہاں کوئی قیمت نہیں
آپ ہی اپنا دامن بڑھا دیجئے، ورنہ موتی زمیں پر بکھر جائیں گے
کالے کالے وہ گیسُو شِکن در شِکن، وہ تبسّم کا عالم چمن در چمن
کھینچ لی ان کی تصویر دل نے مِرے، اب وہ دامن بچا کر کِدھر جائیں گے
رازؔ الہ آبادی
|