* آسماں نیلگُوں آنسو سے زیادہ بھی ن¬ *
آسماں نیلگُوں آنسو سے زیادہ بھی نہیں
اس سے آگے، مرا رونے کا ارادہ بھی نہیں
یہ تو مٹی میں کوئی گُوندھ گیا ھے مُجھ کو
خود سے پہنا ھُوا مَیں نے یہ لبادہ بھی نہیں
تری خاطر مُجھے تحلیل بھی ھونا پڑے گا
مرے اطراف میں رھنا کوئی مادہ بھی نہیں
ایسے چُھو چُھو کے تُجھے دیکھ رھآ ھُوں تو یہ جان
عشق پیچیدہ نہیں تو کوئی سادہ بھی نہیں
مرے دیکھے ھُوئے کو لوگ کہاں دیکھتے ھیں
ظرف ھر آنکھ کا اب اتنا کُشادہ بھی نہیں
پیڑ کو کاٹ کے چھاوں کی یہ تقسیم نہ کر
مُجھے پُورا نہیں مِلنا تو یہ آدھا بھی نہیں
****** |