* کھُلتا ہے یہ دشت آنکھ جھپکنے کے بر *
کھُلتا ہے یہ دشت آنکھ جھپکنے کے برابر
میں دیکھتا ہوں دیکھ نہ سکنے کے برابر
چلتا چلا جاتا ہوں پر اندیشہ لگا ہے
منزل نہ ملی گر مُجھے تھکنے کے برابر
سُننے سے تو خُوشبُو کا تعلق بھی نہیں ہے
کیوں بات وُہ کرتا ہے مہکنے کے برابر
کوشش تو یہ کرتا ہوں کہ چھُو لُوں میں فلک کو
دُوری ہے ! مرا ہاتھ جھٹکنے کے برابر
اندازہ تری سمت کا ہوتا ہی نہیں ہے
آواز تو آتی ہے دھڑکنے کے برابر
اُس بندِ قبا میں تو سبھی رنگ تھے لیکن
اک رنگ زیادہ تھا جھجھکنے کے برابر
میَں بھی کوئی کم تھا کہ لپٹتا نہ اُسی سے
شُعلہ کوئی لپکا تھا جھڑکنے کے برابر
بینائی کو اب ڈھُونڈتا پھرتا ہوں رضا میں
بجلی کوئی چمکی تھی اُچکنے کے برابر
***
|