donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Rafiq Sandeelvi
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* فضا خاموش تھی وقتِ دعا تھا *

 

 · 
طویل غزل/rafiq sandeelvi
 
فضا خاموش تھی وقتِ دعا تھا
میں قرآں کی تلاوت کر رہا تھا
 
لبوں پر سورہء یاسین تھی اور
مرا سینہ گرجنے لگ گیا تھا
 
کئی دن سے نہیں برسی تھیں آنکھیں
کہیں اندر ہی آنسو رُک گیا تھا
 
اُسی جانب ہی سچے راستے تھے
جدھر رُخ اونٹنی نے کر لیا تھا
 
قریب المرگ تھا تو اُس نے مجھکو
شفا دی تھی سکون ِ دل دیا تھا
 
بڑی شدت تھی میرے المیے میں
سمندر کا بھی پانی جل اٹھا تھا
 
ہوا تھا اک طلسماتی اشارہ
جہاں پر جو بھی تھا ساکن ہوا تھا
 
غلاف ِ گرد میں ہر شے تھی لیکن
مرا چہرہ دکھائی دے رہا تھا
 
چھما چھم دوسری بارش ہوئی تھی
میں تنہا بالکونی میں کھڑا تھا
 
گلے ہم مل رہے تھے کہ اچانک
دمامہ کوچ کا بجنے لگا تھا
 
گلوں کی خوشبوئیں باسی ہوئی تھیں
پھلوں کا ذائقہ پھیکا ہوا تھا
 
کرن پر چھپکلی اوندھی پڑی تھی
نیولا روشنی سے لڑ رہا تھا
 
اندھیرا کیچوے کی چال چل کر
ہوا کے پیٹ میں داخل ہوا تھا
 
اداسی میں نے خود تخلیق کی تھی
مجھے جو دکھ بھی تھا خود ساکتہ تھا
 
مساجد میں عبادت ہو رہی تھی
دلوں میں پھر بھی کوئی وسوسہ تھا
 
تری چاندی بھی میلی ہو گئی تھی
مری مے میں بھی پانی مل گیا تھا
 
سبھی پیروں نے مٹی چھوڑ دی تھی
اکیلا ریچھ چرخہ کاتتا تھا
 
تجھے ماں باپ رخصت کر رہے تھے
تری آنکھوں سے دریا بہ رہا تھا
 
گھروں میں پھر بھی چوری ہو گئی تھی
اگرچہ شہر پر پہرا کڑا تھا
 
مری باتوں میں لکنت آگئی تھی
روانی سے مگر وہ بولتا تھا
 
نگر کو عاجزی کا درس دے کر
وہ خود فرعون بنتا جا رہا تھا
 
خطا اس سے بھی ہو سکتی تھی کوئی
خمیر اس کا بھی مٹی سے اٹھا تھا
 
اُسی کوئے کے بچے گم ہوئے تھے
جو اک چڑیا کے انڈے کھا گیا تھا
 
فشارِ لمس میں اُلجھی تھیں روحیں
شجر سے اژدہا لپٹا ہوا تھا
 
تِری شریانیں بھی جلنے لگی تھیں
مرا خوں بھی رگوں میں کھولتا تھا
 
بہشتی پھل دھرے تھے طشری میں
کوئی بابِ تلذذ کھل گیا تھا
 
کھلے تھے چاندنی کے بال کیونکر
ستارہ کیوں گریباں پھاڑتا تھا
 
کسی نے بت کے ٹکڑے کر دیے تھے
عبادت گاہ میں اک شور سا تھا
 
مری ماں مجھکو باہر ڈھونڈتی تھی
میں اپنے گھر کے ملبے میں دبا تھا
 
مجھے دو نیلی آنکھیں روکتی تھیں
مگر میں کالے پانی جا رہا تھا
 
محلوں میں ضیافت اڑ رہی تھی
بھکاری شہر میں بھوکا رہا تھا
 
نہیں تھا اُس طرف تیراک کوئی
جدھر سیلاب کا پانی بڑھا تھا
 
تری بیماری کے خط مل رہے تھے
میں کالج کے جھمیلوں میں پڑا تھا
 
میں دادا جان کی ٹوٹی لحد کو
اٹھارہ سال سے بھولا ہوا تھا
 
معموں کی طرح تھے جسم اپنے
اُسے میں وہ مجھے حل کر رہا تھا
 
بہت گنجل تھا اس کا آئینہ بھی
مرا بھی عکس پیچیدہ ہوا تھا
 
پڑے تھے جھول اُس کے پانیوں میں
سقم میری بھی مٹی میں پڑا تھا
 
مجھے سمجھانے میں صدیاں لگی تھیں
سمجھنے میں اُسے عرصہ لگا تھا
 
چراگاہوں میں بھیڑیں چر رہی تھیں
افق کے پار سورج ڈوبتا تھا
 
مرے ماں باپ نے میرے جنم پر
سنہری اونٹ کا صدقہ دیا تھا
 
صلیبوں سے مجھے وحشت ہوئی تھی
میں طبعی موت مرنا چاہتا تھا
 
کٹورے دودھ کے بانٹے گئے تھے
زمینداروں کے گھر بیٹا ہوا تھا
 
یتیمی شہر پر چھائی ہوئی تھی
سبھی کا باپ جیسے مر گیا تھا
 
ترے بھی گرد تھی نارِ جہنم
مرے بھی چاروں جانب ہاویہ تھا
 
زباں میں کیل ٹھونکے جا رہے تھے
شکم آری سے کاٹا جا رہا تھا
 
مری بھی کھال کھینچی جا رہی تھی
ترا بھی جسم داغا جا رہا تھا
 
تجھے بھی کوئی ناگن ڈس رہی تھی
مجھے بھی کوئی بچھو کاٹتا تھا
 
فضا میں گونگھرو بجنے لگے تھے
میں پریوں کے جلو میں آ رہا تھا
 
ہوائیں مجھکو لوری دے رہی تھی
میں پھولوں کا پنگوڑا جھولتا تھا
 
وہ اک بھیگی اماوس رات تھی جب
مسخر چاند میں نے کر لیا تھا
 
پہاڑ اہنی جگہ سے ہٹ گئے تھے
سمندر نے مجھے رستہ دیا تھا
 
دورانِ آب شمعیں جل رہی تھیں
ہوا کے طاق پر پانی دھرا تھا
 
جڑیں تھیں سبز مائل اور باہر
شجر کا رنگ پیلا پڑ گیا تھا
 
ہوئے تھے چھید دستِ خاکداں میں
فلک کے پاؤں میں سوراخ سا تھا
 
رکابی میں دھری تھیں سرخ آنتیں
پیالے میں لہو رکھا ہوا تھا
 
پڑا تھا دودھ خالی کھوپڑی میں
دھواں برتن کے منہ سے اٹھ رہا تھا
 
کہیں دیوار سے کھالیں ٹنگی تھیں
کہیں مُردے کا پنجر جھولتا تھا
 
کہیں چربی پگھلتی تھی چتا پر
کہیں شعلوں پہ مینڈک بھن رہا تھا
 
یکایک ہیر کو غصہ چڑھا تھا
کوئی رنگلے پلنگ پر سو رہا تھا
 
جسے مارا تھا اس نے چھمکیوں سے
اسے بھینسوں کا کاماں رکھ لیا تھا
 
اسی کے واسطے کوٹی تھی چوری
اسی کی بانسری پر سر دھنا تھا
 
لڑی تھی کیدو سے اس کے لئے ہی
بہت ماں باپ سے جھگڑا کیا تھا
 
بڑے صدمے سہے تھے اس کی خاطر
مگر ڈولی کو کھیڑا لے گیا تھا
 
حویلی میں چڑیلیں آ گئیں تھیں
کوئی اس رات چھت پر دوڑتا تھا
 
سڑک پر خون کے چھینٹے پڑے تھے
کوئی گاڑی تلے کچلا گیا تھا
 
ہوئی تھیں کُند میری پانچوں حسیں
چھٹی حس کا ہی سارا معجزہ تھا
 
کیا تھا چاک پانی نے گریباں
اندھیرا سر میں مٹی ڈالتا تھا
 
پہاڑی سے نہیں اترا تھا ریوڑ
گڈریا رات بھر روتا رہا تھا
 
کوئی شے بھی نظر آتی نہیں تھی
مری آنکھوں پہ پردہ پڑ گیا تھا
 
پچھل پائی مرے پیچھے لگی تھی
میں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتا تھا
 
مجھے اڑنے کی شکتی مل گئی تھی
مگر مین پیٹ کے بل رینگتا تھا
 
ہزاروں اونٹ میری ملکیت تھے
مگر میں پا پیادہ چل رہا تھا
 
مرے احکام کی تابع تھیں نیندیں
مگر میں تھا کہ شب بھر جاگتا تھا
 
بنفشی آئینوں کی اک روش پر
ہوا کے رتھ پہ سورج گھومتا تھا
 
بچھی تھی فرش پر چاندی کی چادر
اور اس پر اک ستارا ناچتا تھا
 
دیے تھے جس نے کپڑے شہر بھر کو
وہی بازار میں ننگا ہوا تھا
 
بڑی محنت سے جس نے ہل چلائے
اسی کی فصل کو کیڑا لگا تھا
 
جنہوں نے بند کیں نیلام گاہیں
انہی ہاتھوں کا سودا ہو رہا تھا
 
جو چہرے پہلے ہی سے زشت رو تھے
انہی پر کوڑھ کا حملہ ہوا تھا
 
کچھ ایسی تیز سانسیں چل رہی تھیں
منڈیروں پر دیا بجھنے لگا تھا
 
مری ملکہ کی ساتوں بیٹیوں پر
کسی ڈائن نے جادو کر دیا تھا
 
وہ اپنے شہر واپس جا رہا تھا
میں اس کے سامنے گم صم کھڑا تھا
 
یکایک ریل کی سیٹی بجی تھی
مجھے اس نے خدا حافظ کہا
 
کھلی کھڑکی سے تا حد ِ بصارت
وہ اپنا ہاتھ لہراتا رہا تھا
 
سمٹ کر چھکڑے نقطہ بن گئے تھے
سٹیشن پر میں تنہا رہ گیا تھا
 
اندھیری رات کے پھیلے تھے سائے
میں تکیے سے لپٹ کر رو دیا تھا
 
بدن میں سوئیاں چبھنے لگی تھیں
عمل سارا ہی الٹا ہو گیا تھا
 
گرفتِ چشم میں تھا آب ِ باراں
گھٹا میں اس کا چہرہ تیرتا تھا
 
نگاہیں دھند میں ڈوبی ہوئی تھیں
کہاسا جسم پر چھایا ہوا تھا
 
میں اندھا یاتری بوڑھا تھا لیکن
وہ تبت کا پہاڑی سلسلہ تھا
 
محبت پھر ہماری جاگ اٹھی تھی
پلوں کے نیچے پانی آ گیا تھا
 
دھرے تھے میرے آگے سات کھانے
اور اُن میں لمس اس کے ہاتھ کا تھا
 
نوالے بھی بہت نمکیں تھے لیکن
عجب اُس کے لبوں کا ذائقہ تھا
 
شراب اور گوشت کی اپنی تھی لذت
مگر اس کے بدن کا جو مزا تھا
 
زمیں،عورت،حویلی اور مویشی
سبھی کچھ غدر میں لُٹ پُٹ گیا تھا
 
کجاوے،باغ،جھولےاور پنگھٹ
پرانا وقت یاد آنے لگا تھا
 
برہنہ پشت پر لگتے تھے کوڑے
غلامی کا زمانہ آ گیا تھا
 
رکی تھیں گھر میں آدم خور راتیں
اندھیرا مجھکو کھانے دوڑتا تھا
 
جب اِندر کا اکھاڑا ہو رہا تھا
میں کالے دیو کے ہتھے چڑھا تھا
 
پری انسان پر عاشق ہوئی تھی
سنہرے دیو کو سکتہ ہوا تھا
 
پرستاں میں اُداسی چھا گئی تھی
اچانک ختم جلسہ ہو گیا تھا
 
پری کے سبز پر نوچے گئے تھے
مجھے بھی قید میں ڈالا گیا تھا
 
مری فرقت میں وہ لاغر ہوئی تھی
میں اُس کے ہجر میں کانٹا ہوا تھا
 
مرا جغرافیہ تھے سرخ شعلے
دھواں ہی میری سرحد بن گیا تھا
 
جڑیں کیا پھیلتیں میری زمیں میں
میں اک چھوٹے سے گملے میں اگا تھا
 
کھلیں جب نصف شب کو میری آنکھیں
کوئی آسیب بستر پر جھکا تھا
 
ڈرامہ ہم نے وہ دیکھا کھ جس کا
ہزاروں سال کا دورانیہ تھا
 
پسِ کہسار خیمے تھے نہ سائے
اب آنکھیں تھیں ہوا تھی اور کیا تھا
 
جمی تھی دھوپ سطحِ آئنہ پر
اور اس کا عکس چھاؤں سے اٹا تھا
 
مچی تھیں میری آنکھیں اور منہ پر
کوئی انگور کا گچھا جھکا تھا
 
پرندہ ڈوبتا تھا آبِ یخ میں
اور آبِ یخ ہوا میں ڈوبتا تھا
 
ستونِ خواب پر بارش کی چھت تھی
اور اُس چھت پر چراغ اور آئینہ تھا
 
رفیق سندیلوی
· 
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 415