* وار کچھ ایسا لگا ہے وقت کی تلوار کا *
غزل
وار کچھ ایسا لگا ہے وقت کی تلوار کا
جسم زخمی ہوگیا انسان کے کردار کا
ذہن میں جب روشنی کے زاویے روشن ہوئے
کھُل گیا جیسے مقدر وادیٔ افکار کا
سخت لہجوں نے لہو کو منجمد کیوں کردیا
ذائقہ ملتا نہیں اب گرمیٔ گفتار کا
جب حصارِ جسم میں ہو تیرگی کی سلطنت
کس طرح تقسیم ہوگا پھر اجالا پیار کا
زخم اُس کا بھر نہ پائے گا کسی مرہم سے بھی
زخم جو اُس کو لگا ہے وہ نہیں ہتھیار کا
جانتے ہیں جسم پر جب سر کہیں ملتا نہیں
تذکرہ کیوں کررہے ہیں آپ پھر دستار کا
خون کے رشتوں کا راحت پاس جب ہوتا نہیں
مسئلہ اٹھتا ہے گھر کے صحن میں دیوار کا
(ڈاکٹر) راحت سلطانہ
Kashana-e-Asar
20-4-226/9, Chowk
Hyderabad-500002
(A.P)
Mob: 9848176637
Ph: 040-24560338
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|