* سوچتا ہوں بارہا کہ کیا مزا رہ جائے *
غزل
سوچتا ہوں بارہا کہ کیا مزا رہ جائے گا
ختم ہوجائے گی جب دنیا ، خدا رہ جائے گا
یہ جہاں یا وہ جہاں ، یہ ختم ہوسکتی نہیں
زندگانی کا ہمیشہ سلسلہ رہ جائے گا
ختم ہوجائے گا طوفاں اپنے سر کو پھوڑ کر
پیڑ ہمت سے ڈٹا ، لڑتا ، کھڑا ، رہ جائے گا
میرے قدموں کے نشاں سے لوگ جانیں گے مجھے
میں گزر جائوں گا ، میرا نقشِ پا رہ جائے گا
زندگی کی ساری رونق پیار ہی کے دم سے ہے
پیار قائم ہے تو پھر شکوہ گلہ رہ جائے گا
ایک دن جب ختم ہوجائے گا یہ رقصِ حیات
آپ کا طوطی بھلا ، کیا بولتا رہ جائے گا؟
دل سے دل جب تک نہیں ملتے تو رہبر جان لو
ساتھ میں رہ کر بھی بیحد فاصلہ رہ جائے گا
رہبر نوادوی
H. No.202, Ward No.26, Mah: Bari Dargah
Gaya Road, Nawada- 805110 (Bihar)
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|