* میں اپنی بلندی کو بھی کھوکر نہیں گ *
غزل
٭………رحمت علی
میں اپنی بلندی کو بھی کھوکر نہیں گرتا
ٹوٹا ہوا تارہ ہوں زمیں پر نہیں گرتا
ہر شاخ سے جڑ پھوٹ کے گڑتی ہے زمیں میں
برگد ہوں میں آندھی میں اکھڑ کر نہیں گرتا
وہ پیڑ ثمر دار کہیں گھر میں نہیں ہے
آنگن میں مرے اب کوئی پتھر نہیں گرتا
اس محفلِ یاراں سے اگر جاتے ہو جائو
اک اینٹ کھسکنے سے کبھی گھر نہیں گرتا
لگتا ہے کسی تیر سے مجروح ہوا ہے
ورنہ تری چھت پر وہ کبوتر نہیں گرتا
وسعت ہی کہاں ہے کہ سما جائے کسی طرح
اس واسطے ندیوں میں سمندر نہیں گرتا
ہر روز بچاتا ہوں میں خود کو یہاں رحمتؔ
کیسے کہوں سر پر کوئی پتھر نہیں گرتا
******* |