* سرخرو نظروں میں ہونے کا بہانہ چاہ *
غزل
٭………راشد انور راشد
سرخرو نظروں میں ہونے کا بہانہ چاہوں
جو میرے پاس ہے سب تجھ پہ گنوانا چاہوں
پاس ہی چشمہ اُبلتا ہے یہ معلوم نہ تھا
تشنگی چل کہ تری پیاس بجھانا چاہوں
لہریں ساحل سے لپٹنے کو مچل جاتی تھیں
تجھ کو منظر میں وہی یاد دلانا چاہوں
وہ کہ ہر لمحہ مری روح کو سیراب کرے
میں کہ ہر رات بچھڑنے کا بہانہ چاہوں
تم تو زر خیز زمیں پاکے بھی مایوس ہوئے
میں تو صحرائوں میں بھی خواب اگانا چاہوں
کوچ کر جائوں گا پوپھٹتے ہی منزل کی طرف
آج کی رات مسافر ہوں ٹھکانہ چاہوں
****** |