* اپنے اندر میں لئے اک کرب کی تقریر ت *
غزل
اپنے اندر میں لئے اک کرب کی تقریر تھا
میں اکیلا ہی شعور و فکر کی تصویر تھا
قیدِ زنداں بن گئی ہے بے گناہوں کا نصیب
ہوگیا آزاد وہ جو لائقِ تعزیر تھا
جس نے دیں قربانیاں قوم و وطن کے واسطے
نام اُس کا سنگِ مرمر پر یہاں تحریر تھا
وہ غلامی سے بھلا آزاد ہوتا کس طرح
زندگی بھر جو اسیرِ حلقۂ زنجیر تھا
جو بنائے ہم نے تہذیبِ کہن کے بام و در
اُس کے سینے میں کہاں وہ جذبۂ تعمیر تھا
فرض و سنّت زندگی سے جس کی غائب تھی سدا
جاہلوں کے درمیاں خود کو وہ کہتا پیر تھا
وہ مقدر کا لکھا کیسے مٹا پاتا رئیس
وہ خدا تھا اور نہیں وہ کاتبِ تقدیر تھا
رئیس اعظم حیدری
4/B, K.B 2nd Lane
Kolkata-700011
Mob: 9883061480
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|