کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا
کیفی اعظمی
غزل
جس نے پودا کوئی نفرت کا اگایا ہوگا
خار چبھنے پہ سمجھ میں اسے آیا ہوگا
سب ہیں ہشیار اسے دیکھ درندوں سے سوا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا
تار ہرایک کترڈالے خرد نے صیاد۔۔۔۔۔۔۔
صید اس دام میں کوئی بھی نہ آیا ہوگا
ساتھ اس کےکئی ارمان ہوئےہوںگےخاک
ہوکے مجبور کوئی خط جو جلایا ہوگا
ہوگا فورا ہی رویہ سے ترے علم مجھے
دل میں اک تیرےذرا بال بھی آیا ہوگا۔۔۔
ان کی آہیں تمہیں برباد کریں گی اک دن
جن کو ارباب جفا تم نے ستایا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔
بن گیا صورت تصویر مجسم جو وہ۔۔۔۔
کچھ تو قاصد نے ابھی اس کوسنایا ہوگا
آج بھی اک اثر شدت وحشت اے قیس۔۔۔
وادئی نجد کے ذروں میں سمایا ہوگا۔۔
غم رضیہ ہے فقط اس کو ہی رسوائی ک
نام خود جس نےکہ محنت سےکمایا ہوگا
رضیہ کاظمی
سات دسمبر۲۰۱۳
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸