* بس یہی سوچ کر ہوا تھا الگ *
بس یہی سوچ کر ہوا تھا الگ
تیرا مجھ سے جو راستہ تھا الگ
ُاُس کا چہرہ تھا میری آنکھوں میں
اور مرے دل میں وہ بسا تھا الگ
جب وہ پہلی دفعہ ملا تھا مجھے
عین اسی وقت ہو رہا تھا الگ
لوگ تو خوش تھے مطمعن تھے بہت
پر مرا دکھ میں سوچتا تھا الگ
ہجر کی نیند تو سہانی تھی
بس میں سوتے میں جاگتا تھا الگ
شہر تعمیر کرنے والوں نے
اس کو مسمار کر دیا تھا الگ
جی اُٹھا تھا رضی میں چاہت میں
اور یقیناً میں مر چکا تھا الگ
***** |