* غزل میں دکھ کا وہ استعارہ نہیں کہو *
غزل میں دکھ کا وہ استعارہ نہیں کہوں گا
میں اپنی پلکوں پہ اب ستارا نہیں کہوں گا
یہ اک دفعہ کی کہی ہوئی دور تک چلے گی
تمہیں محبت میں اب دوبارہ نہیں کہوں گا
میں عشق دریا کی ہر روایت سے آشنا ہوں
میں ڈوب جاؤں گا پر کنارا نہیں کہوں گا
وہ ایک پَل جب وہ کہہ رہی تھی کہو محبت
اُس ایک پَل کو کبھی خسارہ نہیں کہوں گا
اُدھر خدا کے ہی نام پر مجھ پہ ظلم ہو گا
اِدھر رضی میں کبھی خدا را نہیں کہوں گا
رضی الدین رضی
|