* گرمیوں کی بارش میں *
گرمیوں کی بارش میں
دھوپ چھاوں جیسا تھا
اک صدی کی حدت میں
جیسے پل کی ٹھنڈک ہو
موتی جیسے یہ جھرنے
تن کو چھو نا چاہیں تو
خوف میں میں لپٹی سی
اس گماں میں رہتی تھی
کوپلیں جو ٹوٹیں گی
تو میں اپنی شاخوں کو
پھر گلوں سے بھر لوں گی
پر مجھے خبر کیا تھی
دھوپ کی سی شدت سے
اور دہکتی بارش سے
ننھی ننھی کلیوں کو
بن کھلے جلا لوں گی
آج بھیگتی شب ہے
کیوں سیاہ موسم یہ
بس گیا ہےاب مجھ میں
جس سے من کے ہر جانب
اُگ گیا ہے جنگل سا
اس سے رینگتےسب یی
ناگ مجھ سے لپٹے تھے
اور میری شاخوں کو
ڈس گئے تھے کچھ ایسے
کوپلیں تو شاخوں کی
پھر ہری نہ ہو پائی
جس زمیں پہ قائم تھی
ہوگئی وہ دلدل سی
دھوپ کی سی بارش سے
بہہ گئی کہیں میں بھی
ردا فاطمہ
|