* دُھوپ کی تھیں دیواریں *
دُھوپ کی تھیں دیواریں
روشنی کے پہرے تھے
خوف کا یہ عالم تھا
دل کی آرزوءیں بھی
سب دبی دبی سی تھیں
گھر کے سارے ہی رستے
رُوشنی میں کُھلتے تھے
کرنیں جو اترتی تھیں
سانپ بنکے ڈستی تھیں
اک شرار بس تن کا
شعلہ بنکے لپکا تھا
اور اس میں جلتے سے
سائے جتنے بستے تھے
بے حسی کے عالم میں
آ کے روح سے لپٹے
کیسےتھے وہ سب چہرے
روشنی میں رہ کر بھی
جو سیاہ دکھتے تھے
نوچتے تھے جسموں کو
کچھ لہو بھی پیتے تھے
دُھوپ کی تمازت سے
موم سا بدن میرا
یوں پگھل گیا جیسے
سائے میرے تن کے بھی
قید میں ہوں کرنوں کی
روشنی کے پہروں میں
ردا فاطمہ
|