* تُجھے بھولنے کی یہ ضد کرے مرے دل کو *
تُجھے بھولنے کی یہ ضد کرے مرے دل کو ایسی دُعا ملے
مُجھے آج ایسی قبا ملے جسے کوئی رنگِ حنا ملے
وہ جو زخم تھا تری یاد کا وہ کبھی کا میں نے بھلا دیا
مری روح کو اے حیات اب کوئی اور درد نیا ملے
مرے آئینے کا یہ عکس بھی کبھی ہو فدا میرے روپ پر
میں جو اپنے آپ سے بھی ملوں تو لگے کہ گویا خدا ملے
مرے ہم نفس مرے ہم نوا مری تشنگی کو بُجھابھی دے
مرے لب کو حرف ِادا ملے تو نظر کو اشکِ بہا ملے
مرے لفظ کر نہ سکے بیاں مری خاموشی ہے یہ کہہ رہی
میں ترے بیاں میں یوں کھو گئی ہوں کہ خواب کوئی سجا ملے
تھا جو روشنی کا سفر مرا وہ تلاش میں تری کھو گیا
کبھی ساتھ مرے جو چاند تھا اسے نور میرے سوا ملے
مُجھے ایسا صبر عطا ہو جو مری روح تک کو سنوار دے
میں ہوں خاک و زرہء بے نشاں مُجھے خامشی کی ادا ملے
کیوں مری ردا ہے یہ کہہ رہی کہ مدار ہے میرے چار سو
میں حصارِ جاں میں ہی جی سکوں مُجھے مُجھ سے مری وفا ملے
ردا فاطمہ
|