* دور گھر سے ہی سہی پر رابطہ ہو مستقل *
دور گھر سے ہی سہی پر رابطہ ہو مستقل
واپسی کا بھی ذرا اک راستہ ہو مستقل
وصل میں راحت اگرچہ ہے بہت پر یوں بھی ہو
شدتوں کے واسطے کچھ فاصلہ ہو مستقل
خود نمائی کی پرستش چار سو ہے دہر میں
سچ پرکھنے کے لئے اب آئینہ ہو مستقل
گر یہ کاجل پھیل کر آہ و فغاں کرنے لگے
کون چاہے گا ترا پھر سامنا ہو مستقل
چن سکوں اپنے بدن کی کرچیاں بکھری ہوئی
اور سمٹوں اس طرح کچھ حوصلہ ہو مستقل
کیوں زمیں کے فیصلوں پر آسماں خاموش ہے
اب دعاؤں میں خدا سے کچھ گلہ ہو مستقل
گردشوں سے ہار کر ہوں دائروں کے درمیاں
ہو مدار ایسا کوئی جو راستہ ہو مستقل
مجھ کو لگتا ہے ہر اک تصویر تیری ہے مگر
عکس ایسا ہو کہ جس میں تو بسا ہو مستقل
تم لہو سے سینچ ڈالو زخم ِدل اپنے ردا
کیوں غموں سے قربتوں کا سلسلہ ہو مستقل
ردا فاطمہ
کینیڈا
|