* برف کے سمندر پر *
برف کے سمندر پر
ایک لمحہ ٹھرا تھا
خواب کی حقیقت کیا
جم گئے تھے آنسو بھی
حرف لوٹ آئے تھے
تیر برف کی صورت
دل میں جاکے اترے تھے
چاندنی کی چادر پر
کس قدر اندھیرا تھا
اور لہو کے سب قطرے
رک گئے تھے پلکوں پر
کیا عجیب دھوکا تھا
روشنی کی چادر نے
سب کو ڈھانپ رکھا تھا
بے حسی تھی چہروں پر
کس نے کس کو دیکھا تھا
اور کس کو چاہا تھا
نور کے اجالے میں
تیرگی کے سائے تھے
جل رہی تھی میں تنہا
کون میرا اپنا تھا
سب تھے منجمد ہر سو
برف کے سمندر پر
ردا فاطمہ
ٹورونٹو ۔۔۔کینیڈا
|