* کبھی زمیں تو کبھی آسماں سا لگتا ہے *
کبھی زمیں تو کبھی آسماں سا لگتا ہے
خیال اس کا مجھے سائباں سا لگتا ہے
وہ صرف مجھکو ہی کیوں بد گماں سا لگتا ہے
جہاں اس کا بہت قدر داں سا لگتا ہے
بھرے ہجوم میں تنہا دیکھائی دیتا ہے
خموش رہتا ہے اور داستاں سا لگتا ہے
وہ لکھ رہا ہے یہاں جس قدر ہے سچ کتنا
جبھی مرا وہ مجھے ہم زباں سا لگتا ہے
کوئی خبر ہی نہیں کس خودی میں رہتا ہے
وہ نا خدا ہی مرا پاسباں سا لگتا ہے
یہ آندھیاں ہی مرے ساتھ کیوں مسلسل ہیں
کہ شہر سارا ہی اپنا مکاں سا لگتا ہے
میں بھول کر بھی ردا اس کو سوچتی کیوں ہوں
یہ کون ہے جو مجھے مہرباں سا لگتا ہے
ردا فاطمہ
ٹورونتو کینیڈا
|