* راستہ کچھ نہیں بچا ہے اب *
راستہ کچھ نہیں بچا ہے اب
فاصلوں میں ہی بٹ گیا ہے اب
کیوں کھرچتے ہو زخم کو ہھر سے
کوئی باقی میری سزا ہے اب؟
کرکے وعدے جو توڑ دیتا ہے
یار دشمن سے بھی سوا ہے اب
پوچھنا ہے یہ زندگی سے بس
کون مجھ میں یہ جی رہا ہے اب؟
شہر کا آج حال مت پوچھو
ہر طرف خون بہہ رہا ہے اب
وہ جو لفظوں میں بولتا تھا کوئی
روح میں کیوں اتر گیا ہے اب؟
شوقِ الفت ردا بچا لائی
کیا تمھیں پھر وہی گلہ ہے اب؟
ردا فاطمہ
|