* دشتِ جنوں کے باب سے آگے نکل گئی *
غزل
دشتِ جنوں کے باب سے آگے نکل گئی
میں وہ ہوں جو سراب سے آگے نکل گئی
میں پڑھ چکی ہوں اپنی کتابِ حیات کو
میں اب ہر اک نصاب سے آگے نکل گئی
وحشت کا اک حصار تھا مدت سے میرے گرد
لیکن میں اس عذاب سے آگے نکل گئی
پھرتی رہی ہوں صدیوں خیالوں کے دشت میں
پھر دلفریب خواب سے آگے نکل گئی
حیرت میں آئینہ ہے ، زمانہ ہے دم بخود
دنیا کے انقلاب سے آگے نکل گئی
دیکھا جب اپنے آپ کو پھولوں کے درمیاں
میں نکہتِ گلاب سے آگے نکل گئی
ہونٹوں پہ اک سوال رہا کچھ دنوں مگر
رومی ہر اک جواب سے آگے نکل گئی
رومانہ رومی
A/39, Sherton Centre
Block-7, F.B.Area
Karanchi-75950
(Pakistan)
Ph: 0301-2140657
rumana_roomi@hotmail.com
بہ شکریہ جانِ غزل مرتب مشتاق دربھنگوی
+++
|