غزل
آواز دے کے خود کو بلایا نہیں گیا
ایسا گیا ھوں لوٹ کے آیا نہیں گیا
کیسے شفیق پیڑ تھے،کٹنے کے بعد بھی
اُن کا میرے وجود سے سایا نہیں گیا
بکھرا ہوا ہوں ،کتنے زمانوں میں ٹوٹ کر
پورا ابھی سمیٹ کے لایا نہیں گیا
سورج کے ساتھ ڈوب گئے،غم کی جھیل میں
کس رات تیرا ہجر منا یا نہیں گیا
**************