غزل سلیم فگارؔ
غموں کی آگ پہ سب خال و خد سنوارے گئے
یہ کیسے کرب کے عالم سے ہم گزارے گئے
ہوا ہے اس لئے بھی سوگوار و نوحہ کناں
ہجومِ شہر میں ہم لوگ لا کے مارے گئے
بسا طِ وقت پہ کھیلی گئی ہے جب بازی
ہمی تو کھیل میں ہر سمت رکھ کے ہارے گئے
وہ چاند ٹوٹ گیا جس سے رات روشن تھی
چمک رہے تھے فلک پر جو، سب ستارے گئے
جہاں،جہاں سے بھی گُزاری ہجومِ ماتم میں
شگفتہ پھُول سے چہرے قضا پہ وارے گئے
فگارؔ آگ کہاں اب دُھواں بھی مشکل ہے
وہ شب کو اُوس پڑی ہے کہ سب شرارے گئے
*********************