غزل سلیم فگارؔ
آواز دے کے خود بلایا نہیں گیا
ایسا گیا ہوں لوٹ کے آیا نہیں گیا
کیسے شفیق پیڑ تھے کٹنے کے بعد بھی
اُن کا مرے وجود سے سایا نہیں گیا
بکھرا ہوا ہوں کتنے زمانوں میں ٹوٹ کر
پورا ابھی سمیٹ کے لایا نہیں گیا
سورج کے ساتھ ڈوب گئے غم کی جھیل میں
کس رات تیرا ہجر منایا نہیں گیا
اب بھی سلگ رہا ہے مری روح میں فگارؔ
اک اشک،آج تک جو بہایا نہیں گیا
*******************