غزل
ثمینہ گل
غم دکھ درد اور جان اُٹھائے پھرتے ہیں
اشکوں کا سامان اُٹھائے پھرتے ہیں
من کا آنگن سونا ہے تنہائی ہے
صدیوں سے ویران اُٹھائے پھرتے ہیں
پل میں ملیا میٹ کریں ہم دشمن کو
اےسا ہم طوفان اُٹھائے پھرتے ہیں
اپنی بات میں جھوٹی قسمیں کھا کر وہ
ہاتھوں میں قرآن اُٹھائے پھرتے ہیں
کرکے جاتا سودا اپنے سر کا یہ
دل میں یہ ایمان اُٹھائے پھرتے ہیں
خط مین لکھا جان و دل سب تیرے ہیں
ساتھ اپنے انجان اُٹھائے پھرتے ہیں
چاند ستارے دھرتی پر بھی اُگ آئیں
کیسا یہ ارمان اُٹھائے پھرتے ہیں
پاگل جوگی وحشی دل ہے بنجارہ
بستی یہ سنسان اُٹھائے پھرتے ہیں
رنگ و بو میں جس کا نا کوئی ثانی ہو
ہم ایسا گل دان اٹھائے پھرتے ہیں
..............................................