* رات کو پچھلے پہر جب اشک برساتا ہے د *
غزل
رات کو پچھلے پہر جب اشک برساتا ہے دل
اشک کے ہر ایک قطرے میں نظر آتا ہے دل
صبح تک شاید نہ میں ہوں اور نہ یہ سازِ حیات
ڈوبتے جاتے ہیں تارے بیٹھتا جاتا ہے دل
وہ تبسم آفریں چہروں سے کھائے ہیں فریب
جب کوئی بے ساختہ ہنستا ہے بھر آتا ہے دل
تھا کبھی میری نگاہوں میں وفا کا ایک مقام
اب وفا کا نام سن کر ڈوب سا جاتا ہے دل
حُسن واقف ہے نہ اہلِ عشق کو اس کی خبر
کس طرح اک اجنبی صورت پہ آجاتا ہے دل
ہر قدم پر مشکلیں ہیں عشق غیرت مند کو
جرم کرتی ہیں نگاہیں اور شرماتا ہے دل
شام سے یوں صبح کرتا ہوں فراق دوست میں
دل کو سمجھتا ہوں میں اور مجھ کو سمجھاتا ہے دل
عشق کی کشتی کا ساحل سے بھلا کیا واسطہ
کھا تا جاتا ہے تھپیڑے جھومتا جاتا ہے دل
عشق میں ثاقب نگاہیں تو عبث بدنام ہیں
ہم نے دیکھا ہے نظر سے پیشتر آتا ہے دل
٭٭٭
|